ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
دنیا میں اب دکھوں کے سوا کچھ نہیں رہا
اک عمر ہو گئی ہے کہ دل کی کتاب میں
کچھ خشک پتیوں کے سوا کچھ نہیں رہا
یادیں کچھ اس طرح سے سماعت پہ چھا گئیں
پچھلی رفاقتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
لب سی لیے تو اپنے ہی کمرے میں یوں لگا
خاموش آئنوں کے سوا کچھ نہیں رہا
جذبے تمام کھو گئے لمحوں کی دھول میں
اب دل میں دھڑکنوں کے سوا کچھ نہیں رہا
غزل
ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
خالد شریف