EN हिंदी
ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا | شیح شیری
nakaam hasraton ke siwa kuchh nahin raha

غزل

ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا

خالد شریف

;

ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
دنیا میں اب دکھوں کے سوا کچھ نہیں رہا

اک عمر ہو گئی ہے کہ دل کی کتاب میں
کچھ خشک پتیوں کے سوا کچھ نہیں رہا

یادیں کچھ اس طرح سے سماعت پہ چھا گئیں
پچھلی رفاقتوں کے سوا کچھ نہیں رہا

لب سی لیے تو اپنے ہی کمرے میں یوں لگا
خاموش آئنوں کے سوا کچھ نہیں رہا

جذبے تمام کھو گئے لمحوں کی دھول میں
اب دل میں دھڑکنوں کے سوا کچھ نہیں رہا