EN हिंदी
خالد اقبال یاسر شیاری | شیح شیری

خالد اقبال یاسر شیر

12 شیر

آباد بستیاں تھیں فصیلوں کے سائے میں
آپس میں بستیوں کو ملاتا ہوا حصار

خالد اقبال یاسر




بھول جانا تھا جسے ثبت ہے دل پر میرے
یاد رکھنا تھا جسے اس کو بھلا بیٹھا ہوں

خالد اقبال یاسر




برا بھلا واسطہ بہر طور اس سے کچھ دیر تو رہا ہے
کہیں سر راہ سامنا ہو تو اتنی شدت سے منہ نہ موڑوں

خالد اقبال یاسر




ہاں یہ ممکن ہے مگر اتنا ضروری بھی نہیں
جو کوئی پیار میں ہارا وہی فن کار ہوا

خالد اقبال یاسر




انہیں در خواب گاہ سے کس لیے ہٹایا
محافظوں کی وفا شعاری میں کیا کمی تھی

خالد اقبال یاسر




جیسی نگاہ تھی تری ویسا فسوں ہوا
جو کچھ ترے خیال میں تھا جوں کا توں ہوا

خالد اقبال یاسر




خود اپنی شکل دیکھے ایک مدت ہو گئی مجھ کو
اٹھا لیتا ہے پتھر ٹوٹے آئینے نہیں دیتا

خالد اقبال یاسر




لگتا ہے زندہ رہنے کی حسرت گئی نہیں
مر کے بھی سانس لینے کی عادت گئی نہیں

خالد اقبال یاسر




پلٹ کے آئے نہ آئے کوئی سنے نہ سنے
صدا کا کام فضاؤں میں گونجتے تک ہے

خالد اقبال یاسر