EN हिंदी
لگتا ہے زندہ رہنے کی حسرت گئی نہیں | شیح شیری
lagta hai zinda rahne ki hasrat gai nahin

غزل

لگتا ہے زندہ رہنے کی حسرت گئی نہیں

خالد اقبال یاسر

;

لگتا ہے زندہ رہنے کی حسرت گئی نہیں
مر کے بھی سانس لینے کی عادت گئی نہیں

شاید کہ رچ گئی ہے ہمارے خمیر میں
سو بار صلح پر بھی عداوت گئی نہیں

آنا پڑا پلٹ کے حدود و قیود میں
چھوڑی بہت تھی پھر بھی شرافت گئی نہیں

رہتی ہے ساتھ ساتھ کوئی خوش گوار یاد
تجھ سے بچھڑ کے تیری رفاقت گئی نہیں

باقی ہے ریزے ریزے میں اک ارتباط سا
یاسرؔ بکھر کے بھی مری وحدت گئی نہیں