کوئی پہلے تو کوئی بعد میں عیار ہوا
اپنی خواہش پہ جو وابستۂ دربار ہوا
اک تہی جیب کی زاری کوئی سنتا کیسے
رائج ایسے ہی نہیں سکۂ دینار ہوا
بات سلطان سے کیا تخلیئے میں اس کی ہوئی
مصلحت کیش بتانے پہ نہ تیار ہوا
مخبری میری ہوئی چشم زدن میں کیسی
قصر دل ہی میں سارا تھا کہ مسمار ہوا
راہ میں آئے ہوئے شانۂ کہسار کے ساتھ
ابر ٹکرا کے جو پلٹا تو گہر بار ہوا
اپنی حق گوئی کے باوصف نگوں ساری پر
دوش پر اپنے مرا سر ہی مجھے بار ہوا
ہاں یہ ممکن ہے مگر اتنا ضروری بھی نہیں
جو کوئی پیار میں ہارا وہی فن کار ہوا
اک نظر اس نے اچٹتی ہوئی کی تھی یاسرؔ
اور پھر شہر میں رہنا مجھے دشوار ہوا

غزل
کوئی پہلے تو کوئی بعد میں عیار ہوا
خالد اقبال یاسر