شاہ عالم کو سر عام سنا بیٹھا ہوں
میرے مولا تری چوکھٹ سے لگا بیٹھا ہوں
مجھے معلوم ہیں آداب نشست و برخاست
ترے دربار میں اک عمر اٹھا بیٹھا ہوں
اسی موسم کی تمنا تھی کئی برسوں سے
بادباں کھولنے تھے اور گرا بیٹھا ہوں
بھول جانا تھا جسے ثبت ہے دل پر میرے
یاد رکھنا تھا جسے اس کو بھلا بیٹھا ہوں
بات کیسے میں کروں آنکھ ملا کر اس سے
سامنے جس کے نگاہوں کو جھکا بیٹھا ہوں
واپسی کا کوئی رستہ نہیں ملتا یاسرؔ
کشتیاں اپنی میں پہلے ہی جلا بیٹھا ہوں

غزل
شاہ عالم کو سر عام سنا بیٹھا ہوں
خالد اقبال یاسر