اک دائرے کی شکل میں کھینچا ہوا حصار
یلغار سے کچھ اور بھی بدلا ہوا حصار
اک شہر خواب تھا کہ جہاں قلعہ بند تھے
اعدا کی یورشوں سے توانا ہوا حصار
چاہے رسد کے راستے مسدود تھے بہت
جتنا بڑھا محاصرہ پختہ ہوا حصار
آباد بستیاں تھیں فصیلوں کے سائے میں
آپس میں بستیوں کو ملاتا ہوا حصار
اندر سے رہ کسی نے دکھائی غنیم کو
پھر میں تھا اور سامنے گرتا ہوا حصار

غزل
اک دائرے کی شکل میں کھینچا ہوا حصار
خالد اقبال یاسر