جو ربط میری تری نبض ڈوبنے تک ہے
مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے
مری ہی آرزوئے دل کا شعبدہ ہے تو
ترا وجود فقط سحر ٹوٹنے تک ہے
ارادے کتنی ہی عمروں کے باندھ رکھے ہیں
مگر نگاہ کی حد اپنے سامنے تک ہے
ترے مزاج کی تبدیلیوں سے واقف ہوں
یہ مہربانی مرے ہونٹ کھولنے تک ہے
گرہ کشا کبھی سر جمال تجھ پہ بھی ہو
تری رسائی مگر گھر کے آئنے تک ہے
پلٹ کے آئے نہ آئے کوئی سنے نہ سنے
صدا کا کام فضاؤں میں گونجتے تک ہے
وہ ایک بات جو افسانہ بن گئی یاسرؔ
کسی کا حسن سراپا سراہنے تک ہے

غزل
جو ربط میری تری نبض ڈوبنے تک ہے
خالد اقبال یاسر