اپنے صحرا سے بندھے پیاس کے مارے ہوئے ہم
منتظر ہیں کہ ادھر کوئی کنواں آ نکلے
خاور جیلانی
بننے والی بات وہی ہوتی ہے وہ جو
بنتے بنتے یکسر بنتی رہ جاتی ہے
خاور جیلانی
دلوں کی شیشہ گری کارگاہ ہستی میں
ہنر کے زیر و زبر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
خاور جیلانی
اک چنگاری آگ لگا جاتی ہے بن میں اور کبھی
ایک کرن سے ظلمت کو چھٹ جانا پڑتا ہے
خاور جیلانی
جینا تو الگ بات ہے مرنا بھی یہاں پر
ہر شخص کی اپنی ہی ضرورت کے لیے ہے
خاور جیلانی
نہیں ہے کوئی بھی حتمی یہاں حد معلوم
ہر ایک انتہا اک اور انتہا تک ہے
خاور جیلانی
سبھی کردار تھک کر سو گئے ہیں
مگر اب تک کہانی چل رہی ہے
خاور جیلانی
سچائی وہ جنگ ہے جس میں بعض اوقات سپاہی کو
آپ مقابل اپنے ہی ڈٹ جانا پڑتا ہے
خاور جیلانی
صبح ہوتی ہے تو کنج خوش گمانی میں کہیں
پھینک دی جاتی ہے شب بھر کی سیاہی باندھ کر
خاور جیلانی