ہنگام ہوس کار محبت کے لیے ہے
ہے جو بھی کشاکش وہ ندامت کے لیے ہے
جینا تو الگ بات ہے مرنا بھی یہاں پر
ہر شخص کی اپنی ہی ضرورت کے لیے ہے
ملنے تجھے آیا ہوں نہ ملنے کے لیے ہی
آمد یہ مری اصل میں رخصت کے لیے ہے
آخر کو یہی کار گریٔ برف پگھل کر
موجوں کے توسل سے حرارت کے لیے ہے
میں ہاتھ نہ آنے کا ہوں تیرے اے زمانے
یعنی مرا ہونا تری حسرت کے لیے ہے
میں نیند کا در کھولے ہوئے ہوں تری خاطر
ہر خواب مرا تیری سہولت کے لیے ہے
وہ ہے کہ نظر آتا نہیں اور کسی کو
وہ ہے کہ فقط میری بصارت کے لیے ہے
قدرت ہی کو منظور ہے کچھ اور وگرنہ
ہر لمحۂ آئندہ قیامت کے لیے ہے
امکان نے جو شہر بسایا ہے وہاں پر
ہر چشم تماشا نئی حیرت کے لیے ہے
غزل
ہنگام ہوس کار محبت کے لیے ہے
خاور جیلانی