چلتے چلتے راہوں سے کٹ جانا پڑتا ہے
ہوتے ہوتے منظر سے ہٹ جانا پڑتا ہے
دیکھنا پڑ جاتا ہے خود کو کر کے ایک تماشائی
اپنی دھول اڑا کر خود اٹ جانا پڑتا ہے
خطاطی سے دور بھٹکنے والے سوچ کے دامن کو
کورے کاغذ کے ہاتھوں پھٹ جانا پڑتا ہے
سازینہ جب قدم بڑھاتا ہے اس کی پازیبوں کا
کانوں کو جھنکار کی آہٹ جانا پڑتا ہے
خواہش مر جائے تو اس کی چتا کو آگ دکھانے میں
دھڑکن دھڑکن دل کے مرگھٹ جانا پڑتا ہے
تاب نہیں ہو جس میں کانچ کو ریزہ ریزہ کرنے کی
اس پتھر کو ٹکڑوں میں بٹ جانا پڑتا ہے
خود کے متلاشی کو ایک نہ اک دن آخر کار اپنے
بھولے بسرے ہوئے کی چوکھٹ جانا پڑتا ہے
سچائی وہ جنگ ہے جس میں بعض اوقات سپاہی کو
آپ مقابل اپنے ہی ڈٹ جانا پڑتا ہے
اک چنگاری آگ لگا جاتی ہے بن میں اور کبھی
ایک کرن سے ظلمت کو چھٹ جانا پڑتا ہے
بات ریاکاری کے بن بن پاتی نہیں ہے خاورؔ
اس دوزخ میں کروٹ کروٹ جانا پڑتا ہے
غزل
چلتے چلتے راہوں سے کٹ جانا پڑتا ہے
خاور جیلانی