بہتر کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے
کمی کہیں پوشیدہ کوئی رہ جاتی ہے
من چاہی تصویر بنانے میں مجھ سے
ہنر وری میں کچھ کوتاہی رہ جاتی ہے
سیلاب آ جانے پر اس بستی کی
ساری پختہ کاری کچی رہ جاتی ہے
بننے والی بات وہی ہوتی ہے وہ جو
بنتے بنتے یکسر بنتی رہ جاتی ہے
رہ جاتی ہے آتے آتے آتی ساعت
ہونی ہوتے ہوتے ہوتی رہ جاتی ہے
وقت گزر جاتا ہے لیکن دل کی رنجش
دل میں بیٹھی کی بیٹھی ہی رہ جاتی ہے
چلتے رہ جاتے ہیں روز و شب کے دھندے
گنگا الٹی سیدھی بہتی رہ جاتی ہے
پھانک لیے جانے کو خاک مسافت کی
راہوں پر ہی چھانی پھٹکی رہ جاتی ہے
آ جاتی ہے برہا اور دلہنیاں چھت پر
اپنے گیلے بال سکھاتی رہ جاتی ہے
غزل
بہتر کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے
خاور جیلانی