EN हिंदी
روح کے دامن سے اپنی دنیا داری باندھ کر | شیح شیری
ruh ke daman se apni duniya-dari bandh kar

غزل

روح کے دامن سے اپنی دنیا داری باندھ کر

خاور جیلانی

;

روح کے دامن سے اپنی دنیا داری باندھ کر
چل رہے ہیں دم بہ دم آنکھوں پہ پٹی باندھ کر

یہ کہانی ایک ایسے سر پھرے موسم کی ہے
خشک پتوں سے جو لے آیا تھا آندھی باندھ کر

حق اگر کوئی نمو کا تھا تو وہ اس نے ادا
کر دیا ہے بادلوں سے آبیاری باندھ کر

صبح ہوتی ہے تو کنج خوش گمانی میں کہیں
پھینک دی جاتی ہے شب بھر کی سیاہی باندھ کر

اے مرے دریا اگر کوئی بھروسہ ہو ترا
چھوڑ جاؤں میں تری لہروں سے کشتی باندھ کر

گام اٹھتے ہی سفر نے پاٹ دی ساری خلیج
رہروی نے ڈال دی اک سمت دوری باندھ کر

میں سراسر ایک اندیشہ ہوں نقص امن کا
مجھ کو رکھتا ہے لہٰذا میرا قیدی باندھ کر

عجز گوئی پر پڑاؤ ڈال دیتی ہے مری
لفظ یابی معنویت سے ہے تتلی باندھ کر

کھل رہے ہیں سر زمین دل پہ جذبوں کے گلاب
اڑ رہی ہے آج خوشبو خود سے تتلی باندھ کر

جانے سینے میں بکاؤ شے ہے کیا جس کے لیے
دوڑتی پھرتی ہیں سانسیں ریزگاری باندھ کر

وا ہوئے ہوتے دریچے آج امکانات کے
گر نہ رکھ دیتی ہمیں اپنی مساعی باندھ کر