دکھ تو دکھ تھے جو ادھر بہر اماں آ نکلے
آپ اس دل کے خرابے میں کہاں آ نکلے
اک ذرا نکلے تو آواز دبا دیں اپنی
کیا کریں چپ کا اگر اس کی زباں آ نکلے
جانے کب قہقہے رونا پڑیں احباب کے ساتھ
جانے اطراف میں کب شہر فغاں آ نکلے
کچھ تو دل جوئی چلے دھوپ نما خواہش کی
دشت میں تذکرۂ ابر رواں آ نکلے
میرے قدموں سے کرے جوں ہی مسافت آغاز
زاد رہ میں سے اسی وقت زیاں آ نکلے
دیکھتے دیکھتے سورج کا لہو شام ہوئی
شب کے آلام تھے جتنے بھی بجاں آ نکلے
اپنے صحرا سے بندھے پیاس کے مارے ہوئے ہم
منتظر ہیں کہ ادھر کوئی کنواں آ نکلے
کیا میں پھر بھی نہ کروں آگ سلگنے کا گماں
جب مری سانس کی نالی میں دھواں آ نکلے
آئینے بیچ کے اب چلتے بنو خاورؔ تم
اس سے پہلے کہ کوئی سنگ گراں آ نکلے
غزل
دکھ تو دکھ تھے جو ادھر بہر اماں آ نکلے
خاور جیلانی