قدم قدم کا علاقہ ہے ناروا تک ہے
فسون جور و جفا پیشہ جا بجا تک ہے
گر ایک بار کا ہونا الم غنیمت تھا
ستم تو یہ ہے کہ در پیش بارہا تک ہے
دئیے کی لو سے نہیں واسطہ کسی کا کوئی
اگر کسی کا کوئی ہے تو پھر ہوا تک ہے
عمل ہے خود پہ عمل دار تا دم موقوف
اور اس کا رد عمل اپنے التوا تک ہے
صدائے شور و شغب ہے ادھر سماعت تک
شنید گرد و جوانب ادھر صدا تک ہے
مگر یہ کون بتائے سفر نوردوں کو
کہ حد دشت جنوں ان کے اکتفا تک ہے
اے بے قرارئ دل مجھ کو یہ خبر ہی نہ تھی
کہ جو قرار کی سرحد ہے اتقا تک ہے
خدا سے بعد میں رکھے ہوئے ہے دنیا کو
وہ فاصلہ جو ہتھیلی سے اک دعا تک ہے
کہیں پرے کی ہے حاجت روائی سے میری
مرا سوال ضرورت سے ماورا تک ہے
ہے تو ہی آنکھ مری اے جمال پیش نظر
سو یہ تماشہ مرا اک تری رضا تک ہے
نہیں ہے کوئی بھی حتمی یہاں حد معلوم
ہر ایک انتہا اک اور انتہا تک ہے

غزل
قدم قدم کا علاقہ ہے ناروا تک ہے
خاور جیلانی