عطا کے زور اثر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
وہ شاخ بار ثمر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
میں دل میں سچ کی نمو سے تھا خوف کھایا ہوا
کہ سیپ تاب گہر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
اسی پہ تھا مرے ہر ایک تیر کا تکیہ
کماں جو کھینچ کے ڈر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
پڑی تھی آہ کو ہی خود نمائی کی ورنہ
خموشی دیدۂ تر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
جڑے ہوئے تھے بہت وسوسے خیالوں سے
سو نیند خواب کے شر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
دلوں کی شیشہ گری کارگاہ ہستی میں
ہنر کے زیر و زبر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
یہ آب وہ تھا کہ آتش بھڑک نہ پانے کی
روایت ایک شرر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
میں ایک ایسا کنارہ تھا جس کی قربت کو
وہ لہر اپنے بھنور سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
ہر ایک لشکری اترا رہا تھا جس پہ وہ تیغ
خیال ہائے ضرر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
زمیں نہ ہوتی اگر اس کمال کی حامل
قیامت آسماں پر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
تو خوش نصیب تھا ورنہ تری انا کی فصیل
کمال صرف نظر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
غزل
عطا کے زور اثر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی
خاور جیلانی