سر ایذا رسانی چل رہی ہے
طبیعت میں گرانی چل رہی ہے
اسی دل کے ہزاروں وسوسوں میں
وہی دھڑکن پرانی چل رہی ہے
چلا جاتا ہے ہر اک چل چلاؤ
جو شے ہے آنی جانی چل رہی ہے
میں برگ خشک ہوں ہم راہ میرے
ہوا کی بد گمانی چل رہی ہے
بدن میں سانس کی صورت یقیناً
کوئی نقل مکانی چل رہی ہے
بہت ہی مختصر سی زندگی میں
بڑی لمبی کہانی چل رہی ہے
ابھی وہ ساتھ ہے میرے سو مجھ پر
خدا کی مہربانی چل رہی ہے
سبھی کردار تھک کر سو گئے ہیں
مگر اب تک کہانی چل رہی ہے
خیال آتا تھا اس کا جس روش پر
اب اس پر بے خیالی چل رہی ہے
غزل
سر ایذا رسانی چل رہی ہے
خاور جیلانی