EN हिंदी
جمنا پرشاد راہیؔ شیاری | شیح شیری

جمنا پرشاد راہیؔ شیر

13 شیر

عجیب آگ لگا کر کوئی روانہ ہوا
مرے مکان کو جلتے ہوئے زمانہ ہوا

جمنا پرشاد راہیؔ




اماں کسے تھی مرے سائے میں جو رکتا کوئی
خود اپنی آگ میں جلتا ہوا شجر تھا میں

جمنا پرشاد راہیؔ




گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا
ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا

جمنا پرشاد راہیؔ




ہر روح پس پردۂ ترتیب عناصر
ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے

جمنا پرشاد راہیؔ




ہوا کی گود میں موج سراب بھی ہوگی
گریں گے پھول تو ٹھہرے گی گرد شاخوں پر

جمنا پرشاد راہیؔ




اک رات ہے پھیلی ہوئی صدیوں پر
ہر لمحہ اندھیروں کے اثر میں ہے

جمنا پرشاد راہیؔ




جو سنتے ہیں کہ ترے شہر میں دسہرا ہے
ہم اپنے گھر میں دوالی سجانے لگتے ہیں

جمنا پرشاد راہیؔ




کچی دیواریں صدا نوشی میں کتنی طاق تھیں
پتھروں میں چیخ کر دیکھا تو اندازا ہوا

جمنا پرشاد راہیؔ




کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ
اپنی آنکھیں مری آنکھوں کے مقابل لاؤ

جمنا پرشاد راہیؔ