EN हिंदी
گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا | شیح شیری
ganw se guzrega aur miTTi ke ghar le jaega

غزل

گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا

جمنا پرشاد راہیؔ

;

گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا
ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا

گھر کی تنہائی میں یوں محسوس ہوتا ہے مجھے
جیسے کوئی مجھ کو مجھ سے چھین کر لے جائے گا

کون دے گا اس کو میری تہ نشینی کا پتا
کون میرے ڈوب جانے کی خبر لے جائے گا

آئینے ویراں نگاہی کا سبب بن جائیں گے
خود پسندی کا جنوں تاب نظر لے جائے گا

صبح کے سینے سے پھوٹے گی شعاع مہر نو
سب اندھیرے رات کے دست سحر لے جائے گا

جذبۂ جہد مسلسل ہے بنائے زندگی
یہ گیا تو سارا جینے کا ہنر لے جائے گا