گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا
ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا
گھر کی تنہائی میں یوں محسوس ہوتا ہے مجھے
جیسے کوئی مجھ کو مجھ سے چھین کر لے جائے گا
کون دے گا اس کو میری تہ نشینی کا پتا
کون میرے ڈوب جانے کی خبر لے جائے گا
آئینے ویراں نگاہی کا سبب بن جائیں گے
خود پسندی کا جنوں تاب نظر لے جائے گا
صبح کے سینے سے پھوٹے گی شعاع مہر نو
سب اندھیرے رات کے دست سحر لے جائے گا
جذبۂ جہد مسلسل ہے بنائے زندگی
یہ گیا تو سارا جینے کا ہنر لے جائے گا
غزل
گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا
جمنا پرشاد راہیؔ