کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ
اپنی آنکھیں مری آنکھوں کے مقابل لاؤ
پھول کاغذ کے ہیں اب کانچ کے گل دانوں میں
تم بھی بازار سے پتھر کے عنادل لاؤ
ایک آواز ابھرتی ہے پس منظر خوں
اے اجالو مری تصویر کا قاتل لاؤ
مڑ کے دیکھو گے تو پتھر سے بدل جاؤ گے
اب تصور میں نہ چھوڑی ہوئی منزل لاؤ
روشنی ہے مری ویران نگاہی کا سبب
اب نہ چہرہ کوئی سورج کے مماثل لاؤ
غزل
کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ
جمنا پرشاد راہیؔ