دیار سنگ میں رہ کر بھی شیشہ گر تھا میں
زمانہ چیخ رہا تھا کہ بے خبر تھا میں
لگی تھی آنکھ تو مریم کی گود کا تھا گماں
کھلی جب آنکھ تو دیکھا صلیب پر تھا میں
اماں کسے تھی مرے سائے میں جو رکتا کوئی
خود اپنی آگ میں جلتا ہوا شجر تھا میں
تمام عمر نہ لڑنے کا غم رہا مجھ کو
عجب محاذ پہ ہارا ہوا ظفر تھا میں
ہوائے وقت نے پتھر بنا دیا ورنہ
لچکتی شاخ سے ٹوٹا ہوا ثمر تھا میں
تمام شہر میں جنگل کی آگ ہو جیسے
ہوا کے دوش پہ اڑتی ہوئی خبر تھا میں
غزل
دیار سنگ میں رہ کر بھی شیشہ گر تھا میں
جمنا پرشاد راہیؔ