EN हिंदी
پرندے لوٹ کے جب گھر کو جانے لگتے ہیں | شیح شیری
parinde lauT ke jab ghar ko jaane lagte hain

غزل

پرندے لوٹ کے جب گھر کو جانے لگتے ہیں

جمنا پرشاد راہیؔ

;

پرندے لوٹ کے جب گھر کو جانے لگتے ہیں
ہمیں بھی یاد در و بام آنے لگتے ہیں

فصیل سرحد ماضی دھڑکنے لگتی ہے
جو خواب نیند کا در کھٹکھٹانے لگتے ہیں

حباب دھوپ کی بارش میں پھوٹتے بنتے
ثبات ذات کا مطلب بتانے لگتے ہیں

سر محاذ ترے آتے ہی حریف مرے
یہ میرے ہاتھ مجھے آزمانے لگتے ہیں

ترے خیال کی محفل جو سجنے لگتی ہے
قریب حال گزشتہ زمانے لگتے ہیں

جو آسمان کو ضد ہے تو کم نہیں ہم بھی
کہ بعد برق نئے گھر بنانے لگتے ہیں

جو سنتے ہیں کہ ترے شہر میں دسہرا ہے
ہم اپنے گھر میں دوالی سجانے لگتے ہیں

سنی سنائی سی ہر اک کہانی لگتی ہے
نئے ہیں لفظ معانی پرانے لگتے ہیں