EN हिंदी
جنگ میں پروردگار شب کا کیا قصا ہوا | شیح شیری
jang mein parwar-digar-e-shab ka kya qissa hua

غزل

جنگ میں پروردگار شب کا کیا قصا ہوا

جمنا پرشاد راہیؔ

;

جنگ میں پروردگار شب کا کیا قصا ہوا
لشکر شب صبح کی سرحد پہ کیوں پسپا ہوا

اک عجب سی پیاس موجوں میں صدا دیتی ہوئی
میں سمندر اپنی ہی دہلیز پر بکھرا ہوا

کچی دیواریں صدا نوشی میں کتنی طاق تھیں
پتھروں میں چیخ کر دیکھا تو اندازا ہوا

کیا صداؤں کو صلیب خامشی دے دی گئی
یا جنوں کے خواب کی تعبیر سناٹا ہوا

رفتہ رفتہ موسموں کے رنگ یوں بکھرے کہ بس
ہے مرے اندر کوئی زندہ مگر ٹوٹا ہوا

سبز ہاتھوں کی لکیریں زرد ماتھے کی شکن
اور کیا دیتا مری تقدیر کا لکھا ہوا