سمند خواب وہاں چھوڑ کر روانہ ہوا
جہاں سراغ سفر کوئی نقش پا نہ ہوا
عجیب آگ لگا کر کوئی روانہ ہوا
مرے مکان کو جلتے ہوئے زمانہ ہوا
میں تھا کہاں کا مصور کہ پوجتی دنیا
بہت ہوا تو مرا گھر نگار خانہ ہوا
اگاؤ درد کی فصلیں کہ زندگی جاگے
لہو کی فصل اگاتے ہوئے زمانہ ہوا
میں آئینہ ہوں ہر اک صاحب نظر کے لیے
مگر خود اپنے ہی چہرے سے آشنا نہ ہوا
بکھر گئی تھی سر راہ زندگی لیکن
قدم رکے تو مرا فرض تازیانہ ہوا
غزل
سمند خواب وہاں چھوڑ کر روانہ ہوا
جمنا پرشاد راہیؔ