بجھے بجھے سے شرارے ہیں زرد شاخوں پر
سجا گیا ہے کوئی اپنا درد شاخوں پر
سفیر شب کا کوئی اشک ڈھونڈتے ہوں گے
ہوا کے جلتے ہوئے ہونٹ سرد شاخوں پر
عیاں ہے رنگ تغزل گلوں کے چہروں سے
بیاض رنگ نہیں فرد فرد شاخوں پر
لپیٹے نور کی چادر میں درد کے سائے
بھٹک رہا ہے کوئی شب نورد شاخوں پر
ہوا کی گود میں موج سراب بھی ہوگی
گریں گے پھول تو ٹھہرے گی گرد شاخوں پر
پیے ہوئے ہیں شجر انتہائے کرب کا سم
کہ ہے نمود گل لاجورد شاخوں پر
عروس بوئے بہاراں نے کیا شرارت کی
کہ ہیں سفیر صبا خود نبرد شاخوں پر
وہ اک اڑان میں شہرت کا آسماں ٹھہرا
سمٹ کے رہ گئے باتوں کے مرد شاخوں پر
غزل
بجھے بجھے سے شرارے ہیں زرد شاخوں پر
جمنا پرشاد راہیؔ