اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہ گزر کوئی
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
حمایت علی شاعرؔ
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا
حمایت علی شاعرؔ
بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
حمایت علی شاعرؔ
ہم بھی ہیں کسی کہف کے اصحاب کے مانند
ایسا نہ ہو جب آنکھ کھلے وقت گزر جائے
حمایت علی شاعرؔ
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
حمایت علی شاعرؔ
ہر طرف اک مہیب سناٹا
دل دھڑکتا تو ہے مگر خاموش
حمایت علی شاعرؔ
ایماں بھی لاج رکھ نہ سکا میرے جھوٹ کی
اپنے خدا پہ کتنا مجھے اعتماد تھا
حمایت علی شاعرؔ
اس دشت پہ احساں نہ کر اے ابر رواں اور
جب آگ ہو نم خوردہ تو اٹھتا ہے دھواں اور
حمایت علی شاعرؔ
اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے
حمایت علی شاعرؔ