EN हिंदी
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ | شیح شیری
har qadam par nit-nae sanche mein Dhal jate hain log

غزل

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

حمایت علی شاعرؔ

;

ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ

کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ

کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس
پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ

اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ

شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ

شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ