اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سوئے آشیاں یارو
اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہ گزر کوئی
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
پھول ہیں کہ لاشیں ہیں باغ ہے کہ مقتل ہے
شاخ شاخ ہوتا ہے دار کا گماں یارو
موت سے گزر کر یہ کیسی زندگی پائی
فکر پا بہ جولاں ہے گنگ ہے زباں یارو
تربتوں کی شمعیں ہیں اور گہری خاموشی
جا رہے تھے کس جانب آ گئے کہاں یارو
راہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر
میر کارواں یارو میر کارواں یارو
صرف زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہتے
کچھ غم محبت ہو کچھ غم جہاں یارو
وقت کا تقاضا تو اور بھی ہے کچھ لیکن
کچھ نہیں تو ہو جاؤ میرے ہم زباں یارو
ایک میں ہوں جس کو تم مانتے نہیں شاعرؔ
اور ایک میں ہی ہوں تم میں نکتہ داں یارو
غزل
اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو
حمایت علی شاعرؔ