رات سنسان دشت و در خاموش
چاند تارے شجر حجر خاموش
کوئی آواز پا نہ بانگ جرس
کارواں اور اس قدر خاموش
ہر طرف اک مہیب سناٹا
دل دھڑکتا تو ہے مگر خاموش
ہوئے جاتے ہیں کس لیے آخر
ہم سفر بات بات پر خاموش
ہیں یہ آداب رہ گزر کہ خوف
راہرو چپ ہیں راہبر خاموش
مختصر ہو نہ ہو شب تاریک
ہم کو جلنا ہے تا سحر خاموش
ڈھل چکی رات بجھ گئیں شمعیں
راہ تکتی ہے چشم تر خاموش
جانے کیا بات کر رہے تھے کہ ہم
ہو گئے ایک نام پر خاموش
ہم سے شاعرؔ بھی ہو گئے آخر
رنگ حالات دیکھ کر خاموش
غزل
رات سنسان دشت و در خاموش
حمایت علی شاعرؔ