اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے
سورج کے اجالے میں چراغاں نہیں ممکن
سورج کو بجھا دو کہ زمیں جشن منائے
مہتاب کا پرتو بھی ستاروں پہ گراں ہے
بیٹھے ہیں شب تار سے امید لگائے
ہر موج ہوا شمع کے در پے ہے ازل سے
دل سے کہو لو اپنی ذرا اور بڑھائے
کس کوچۂ طفلاں میں چلے آئے ہو شاعرؔ
آوازہ کسے ہے تو کوئی سنگ اٹھائے
غزل
اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
حمایت علی شاعرؔ