میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا
شاید ابھی تلک مرا پندار مجھ میں تھا
وہ کج ادا سہی مری پہچان بھی تھا وہ
اپنے نشے میں مست جو فن کار مجھ میں تھا
میں خود کو بھولتا بھی تو کس طرح بھولتا
اک شخص تھا کہ آئنہ بردار مجھ میں تھا
شاید اسی سبب سے توازن سا مجھ میں ہے
اک محتسب لئے ہوئے تلوار مجھ میں تھا
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا
غزل
میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا
حمایت علی شاعرؔ