یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا
ٹوٹا ہوں اس بنا پہ کہ میں کج نہاد تھا
الزام اپنی موت کا موسم پہ کیوں دھروں
میرے بدن میں میرے لہو کا فساد تھا
اب میں بھی جل کے راکھ ہوں میرے جہاز بھی
کل میرا نام طارق ابن زیاد تھا
ایماں بھی لاج رکھ نہ سکا میرے جھوٹ کی
اپنے خدا پہ کتنا مجھے اعتماد تھا
گہرے سمندروں میں بھی پتھر ملے مجھے
تھا میں گہر شناس مگر سنگ زاد تھا
تو بادباں دریدہ سفینے کا ناخدا
اور قلزم سراب کا میں سندباد تھا
اب ہوں زباں بریدہ تو یہ سوچ کر ہوں چپ
یہ بھی سخن شناس کا انداز داد تھا
غزل
یہ بات تو نہیں ہے کہ میں کم سواد تھا
حمایت علی شاعرؔ