EN हिंदी
ہلال فرید شیاری | شیح شیری

ہلال فرید شیر

13 شیر

آج نہ ہم سے پوچھئے کیسا کمال ہو گیا
ہجر کے خوف میں رہے اور وصال ہو گیا

ہلال فرید




آج پھر دب گئیں درد کی سسکیاں
آج پھر گونجتا قہقہہ رہ گیا

ہلال فرید




اپنے دکھ میں رونا دھونا آپ ہی آیا
غیر کے دکھ میں خود کو دکھانا عشق میں سیکھا

ہلال فرید




باہر جو نہیں تھا تو کوئی بات نہیں تھی
احساس ندامت مگر اندر بھی نہیں تھا

ہلال فرید




ہم خود بھی ہوئے نادم جب حرف دعا نکلا
سمجھے تھے جسے پتھر وہ شخص خدا نکلا

ہلال فرید




اس عقل کی ماری نگری میں کبھی پانی آگ نہیں بنتا
یہاں عشق بھی لوگ نہیں کرتے یہاں کوئی کمال نہیں ہوتا

ہلال فرید




جام عشق پی چکے زندگی بھی جی چکے
اب ہلالؔ گھر چلو اب تو شام ہو گئی

ہلال فرید




جب وقت پڑا تھا تو جو کچھ ہم نے کیا تھا
سمجھے تھے وہی یار ہمارا بھی کرے گا

ہلال فرید




مری داستاں بھی عجیب ہے وہ قدم قدم مرے ساتھ تھا
جسے راز دل نہ بتا سکا جسے داغ دل نہ دکھا سکا

ہلال فرید