تھی عجب ہی داستاں جب تمام ہو گئی
اک مثال بن گئی اک پیام ہو گئی
رات جب جواں ہوئی جب دیوں کے سر اٹھے
تب ہوا بھی اور کچھ تیز گام ہو گئی
ایک بس نظر پڑی اس کے بعد یوں ہوا
میں نے جو غزل لکھی تیرے نام ہو گئی
مٹ رہی تھی تشنگی بڑھ رہی تھی دوستی
پھر انا کی تیغ کیوں بے نیام ہو گئی
فلسفے کو چھوڑیئے کیا کہیں گے سوچیے
زندگی جو آپ سے ہم کلام ہو گئی
طنز تو بہت ہوئے پر عجیب بات ہے
راہ جو ہماری تھی راہ عام ہو گئی
کیسی عمدہ قوم تھی کیا ہی زندہ قوم تھی
آخر اس کو کیا ہوا کیوں غلام ہو گئی
جام عشق پی چکے زندگی بھی جی چکے
اب ہلالؔ گھر چلو اب تو شام ہو گئی
غزل
تھی عجب ہی داستاں جب تمام ہو گئی
ہلال فرید