ممکن ہی نہیں کہ کنارا بھی کرے گا
عاشق ہے تو پھر عشق دوبارہ بھی کرے گا
پردیس میں آیا ہوں تو کچھ میں بھی کروں گا
کچھ کام مرے تخت کا تارا بھی کرے گا
انداز یہی ہے یہی اطوار ہیں اس کے
بیٹھے گا بہت دور اشارہ بھی کرے گا
روئے گا کبھی خوب کبھی ہنسے گا
کیا اور ترے تیر کا مارا بھی کرے گا
جب وقت پڑا تھا تو جو کچھ ہم نے کیا تھا
سمجھے تھے وہی یار ہمارا بھی کرے گا
شعروں میں ہلالؔ آپ کو کہنا ہے فقط سچ
سچ بات مگر کوئی گوارا بھی کرے گا
غزل
ممکن ہی نہیں کہ کنارا بھی کرے گا
ہلال فرید