EN हिंदी
ممکن ہی نہیں کہ کنارا بھی کرے گا | شیح شیری
mumkin hi nahin ki kinara bhi karega

غزل

ممکن ہی نہیں کہ کنارا بھی کرے گا

ہلال فرید

;

ممکن ہی نہیں کہ کنارا بھی کرے گا
عاشق ہے تو پھر عشق دوبارہ بھی کرے گا

پردیس میں آیا ہوں تو کچھ میں بھی کروں گا
کچھ کام مرے تخت کا تارا بھی کرے گا

انداز یہی ہے یہی اطوار ہیں اس کے
بیٹھے گا بہت دور اشارہ بھی کرے گا

روئے گا کبھی خوب کبھی ہنسے گا
کیا اور ترے تیر کا مارا بھی کرے گا

جب وقت پڑا تھا تو جو کچھ ہم نے کیا تھا
سمجھے تھے وہی یار ہمارا بھی کرے گا

شعروں میں ہلالؔ آپ کو کہنا ہے فقط سچ
سچ بات مگر کوئی گوارا بھی کرے گا