رکنے کے لیے دست ستم گر بھی نہیں تھا
افسوس کسی ہاتھ میں پتھر بھی نہیں تھا
باہر جو نہیں تھا تو کوئی بات نہیں تھی
احساس ندامت مگر اندر بھی نہیں تھا
جنت نہ مجھے دی تو میں دوزخ بھی نہ لوں گا
مومن جو نہیں تھا تو میں کافر بھی نہیں تھا
لوٹا جو وطن کو تو وہ رستے ہی نہیں تھے
جو گھر تھا وہاں وہ تو مرا گھر بھی نہیں تھا
انجام تو ظاہر تھا صفیں ٹوٹ چکی تھیں
سالار معزز سر لشکر بھی نہیں تھا
افسوس قبیلے پہ کھلا غیر کے ہاتھوں
سردار کے پہلو میں تو خنجر بھی نہیں تھا
جو بات کہی تھی وہ بہت صاف کہی تھی
دل میں جو نہیں تھا وہ زباں پر بھی نہیں تھا
یہ سچ ہے قصیدہ نہ ہلالؔ ایک بھی لکھا
یہ سچ ہے کہ میں شاہ کا نوکر بھی نہیں تھا

غزل
رکنے کے لیے دست ستم گر بھی نہیں تھا
ہلال فرید