EN हिंदी
ہم خود بھی ہوئے نادم جب حرف دعا نکلا | شیح شیری
hum KHud bhi hue nadim jab harf-e-dua nikla

غزل

ہم خود بھی ہوئے نادم جب حرف دعا نکلا

ہلال فرید

;

ہم خود بھی ہوئے نادم جب حرف دعا نکلا
سمجھے تھے جسے پتھر وہ شخص خدا نکلا

اس دشت سے ہو کر بھی اک سیل انا نکلا
کچھ برگ شجر ٹوٹے کچھ زور ہوا نکلا

الجھن کا سلجھ جانا اک خام خیالی تھی
جب غور کیا ہم نے اک پیچ نیا نکلا

اے فطرت صد معنی غالبؔ کی غزل ہے تو
جب حسن ترا پرکھا پہلے سے سوا نکلا

ہم پاس بھی جانے سے جس شخص کے ڈرتے تھے
چھو کر جو اسے دیکھا مٹی کا بنا نکلا

پھولوں میں ہلالؔ آؤ اب رقص خزاں دیکھیں
کانٹوں کے نگر میں تو ہر باغ ہرا نکلا