ہم خود بھی ہوئے نادم جب حرف دعا نکلا
سمجھے تھے جسے پتھر وہ شخص خدا نکلا
اس دشت سے ہو کر بھی اک سیل انا نکلا
کچھ برگ شجر ٹوٹے کچھ زور ہوا نکلا
الجھن کا سلجھ جانا اک خام خیالی تھی
جب غور کیا ہم نے اک پیچ نیا نکلا
اے فطرت صد معنی غالبؔ کی غزل ہے تو
جب حسن ترا پرکھا پہلے سے سوا نکلا
ہم پاس بھی جانے سے جس شخص کے ڈرتے تھے
چھو کر جو اسے دیکھا مٹی کا بنا نکلا
پھولوں میں ہلالؔ آؤ اب رقص خزاں دیکھیں
کانٹوں کے نگر میں تو ہر باغ ہرا نکلا
غزل
ہم خود بھی ہوئے نادم جب حرف دعا نکلا
ہلال فرید