یہ وصال و ہجر کا مسئلہ تو مری سمجھ میں نہ آ سکا
کبھی کوئی مجھ کو نہ پا سکا کبھی میں کسی کو نہ پا سکا
کئی بستیوں کو الٹ چکا کوئی تاب اس کی نہ لا سکا
مگر آندھیوں کا یہ سلسلہ ترا نقش پا نہ مٹا سکا
مری داستاں بھی عجیب ہے وہ قدم قدم مرے ساتھ تھا
جسے راز دل نہ بتا سکا جسے داغ دل نہ دکھا سکا
نہ ہی بجلیاں نہ ہی بارشیں نہ ہی دشمنوں کی وہ سازشیں
بھلا کیا سبب ہے بتا ذرا جو تو آج بھی نہیں آ سکا
کبھی روشنی کی طلب رہی کبھی حوصلوں کی کمی رہی
میں چراغ کو ترے نام کے نہ جلا سکا نہ بجھا سکا
وہ جو عکس رنگ ہلالؔ تھی وہ جو آپ اپنی مثال تھی
مجھے آج تک ہے خلش یہی تجھے وہ غزل نہ سنا سکا
غزل
یہ وصال و ہجر کا مسئلہ تو مری سمجھ میں نہ آ سکا
ہلال فرید