آنکھوں میں وہ خواب نہیں بستے پہلا سا وہ حال نہیں ہوتا
اب فصل بہار نہیں آتی اور رنج و ملال نہیں ہوتا
اس عقل کی ماری نگری میں کبھی پانی آگ نہیں بنتا
یہاں عشق بھی لوگ نہیں کرتے یہاں کوئی کمال نہیں ہوتا
ہم آج بہت ہی پریشاں ہیں اس وقت کے پھیر سے حیراں ہیں
ہمیں لے کے چلو کسی ایسی طرف جہاں ہجر و وصال نہیں ہوتا
جتنی ہے ندامت تم کو اب اتنے ہی پشیماں ہم بھی ہیں
تم اس کا جواب ہی کیوں سوچو ہم سے جو سوال نہیں ہوتا
وہ بستی بھی اک بستی تھی یہ بستی بھی اک بستی ہے
وہاں ٹوٹ کے دل جڑ جاتے تھے یہاں کوئی خیال نہیں ہوتا
اس شہر کی ریت کو عام کریں جھک جھک کے سبھی کو سلام کریں
ہر کام تو ہم کر لیتے ہیں یہی کام ہلالؔ نہیں ہوتا
غزل
آنکھوں میں وہ خواب نہیں بستے پہلا سا وہ حال نہیں ہوتا
ہلال فرید