اگرچہ اس کی ہر اک بات کھردری ہے بہت
مجھے پسند ہے ڈھنگ اس کے بات کرنے کا
حکیم منظور
اپنی نظر سے ٹوٹ کر اپنی نظر میں گم ہوا
وہ بڑا با شعور تھا اپنے ہی گھر میں گم ہوا
حکیم منظور
باغ میں ہونا ہی شاید سیب کی پہچان تھی
اب کہ وہ بازار میں ہے اب تو بکنا ہے اسے
حکیم منظور
چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا
وہم تھا میرا کہ پتھر آئینہ ہو جائے گا
حکیم منظور
دیکھتے ہیں در و دیوار حریفانہ مجھے
اتنا بے بس بھی کہاں ہوگا کوئی گھر میں کبھی
حکیم منظور
گرے گی کل بھی یہی دھوپ اور یہی شبنم
اس آسماں سے نہیں اور کچھ اترنے کا
حکیم منظور
ہم کسی بہروپئے کو جان لیں مشکل نہیں
اس کو کیا پہچانیے جس کا کوئی چہرا نہ ہو
حکیم منظور
ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا
وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا
حکیم منظور
اتنا بدل گیا ہوں کہ پہچاننے مجھے
آئے گا وہ تو خود سے گزر کر ہی آئے گا
حکیم منظور