EN हिंदी
حکیم منظور شیاری | شیح شیری

حکیم منظور شیر

16 شیر

جو میرے پاس تھا سب لوٹ لے گیا کوئی
کواڑ بند رکھوں اب مجھے ہے ڈر کس کا

حکیم منظور




مجھ میں تھے جتنے عیب وہ میرے قلم نے لکھ دیئے
مجھ میں تھا جتنا حسن وہ میرے ہنر میں گم ہوا

حکیم منظور




نہ جانے کس لیے روتا ہوں ہنستے ہنستے میں
بسا ہوا ہے نگاہوں میں آئینہ کوئی

حکیم منظور




ریزہ ریزہ رات بھر جو خوف سے ہوتا رہا
دن کو سانسوں پر ابھی تک بوجھ اس پتھر کا ہے

حکیم منظور




شہر کے آئین میں یہ مد بھی لکھی جائے گی
زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہیئے

حکیم منظور




تیری آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے ہیں
تیرے ہاتھوں میں دیکھا ہے خنجر بھی

حکیم منظور




تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی
تو ذرا مجھ کو بھی رکھ اپنے برابر میں کبھی

حکیم منظور