کچھ سمجھ آیا نہ آیا میں نے سوچا ہے اسے
ذہن پر اس کو اتارا دل پہ لکھا ہے اسے
ان دنوں اس شہر میں اک فصل خوں کا رقص ہے
ہم بہت بے بس ہوئے ہیں، میں نے لکھا ہے اسے
دھوپ نے ہنس کر کہا دیکھا تجھے پگھلا دیا
برف کیا کہتی نفاست نے ڈبویا ہے اسے
باغ میں ہونا ہی شاید سیب کی پہچان تھی
اب کہ وہ بازار میں ہے اب تو بکنا ہے اسے
کل بھرے بادل میں کیا رنگوں کا دروازہ کھلا
مجھ کو کل تک تھا یہ دعویٰ میں نے سمجھا ہے اسے
ایک شے جس کو عموماً صرف دل کہتے ہیں لوگ
مر گیا ہوتا مگر میں نے بچایا ہے اسے
کرب دل کا میرے لب پر آئے گا منظورؔ کیا
میں نے خون دل سے کاغذ پر اتارا ہے اسے
غزل
کچھ سمجھ آیا نہ آیا میں نے سوچا ہے اسے
حکیم منظور