کوئی پیام اب نہ پیمبر ہی آئے گا
وہ شب ہے آسمان سے پتھر ہی آئے گا
جا کر وہ اپنے شہر سے اس کو یقین ہے
پانی پہ کوئی نقش بنا کر ہی آئے گا
اتنا بدل گیا ہوں کہ پہچاننے مجھے
آئے گا وہ تو خود سے گزر کر ہی آئے گا
بے در کا اک مکان رلاتا ہے رات دن
اس کا بھی دل جو ہوگا کبھی بھر ہی آئے گا
کیا سوچ کے گیا ہے خلاؤں کی سیر کو
اب کے پرند لوٹ کے بے پر ہی آئے گا
خوشبو کا انتظار نہ کر بیٹھ کر یہاں
شیشے کے اس مکان میں پتھر ہی آئے گا
پتھر کوئی فضا میں معلق رہے گا کیوں
منظورؔ طے ہے یہ کسی سر پر ہی آئے گا
غزل
کوئی پیام اب نہ پیمبر ہی آئے گا
حکیم منظور