ڈھل گیا جسم میں آئینے میں پتھر میں کبھی
چھپ سکا میں نہ کسی رنگ کے پیکر میں کبھی
میں یہی نقطۂ موہوم رہوں گا نہ سدا
میں جھلک اٹھوں گا آخر کسی منظر میں کبھی
وہ سمندر کی بڑائی سے ہے مرعوب کہ وہ
تشنہ لب بن کے رہا ہے نہ سمندر میں کبھی
تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی
تو ذرا مجھ کو بھی رکھ اپنے برابر میں کبھی
دیکھتے ہیں در و دیوار حریفانہ مجھے
اتنا بے بس بھی کہاں ہوگا کوئی گھر میں کبھی
اصل میں کچھ بھی نہ تھا چند لکیروں کے سوا
ہم بھی رکھتے تھے یقیں حرف مقدر میں کبھی
اس سے کیا پوچھتے ہم اپنے معانی منظورؔ
پھول کھلتے نہیں دیکھے کسی بنجر میں کبھی
غزل
ڈھل گیا جسم میں آئینے میں پتھر میں کبھی
حکیم منظور