اپنی نظر سے ٹوٹ کر اپنی نظر میں گم ہوا
وہ بڑا با شعور تھا اپنے ہی گھر میں گم ہوا
مرگ زدہ تھے رنگ سب آئنے پشت چشم تھے
اک وہی درد مند تھا خوف و خطر میں گم ہوا
راستے آئینے بنے پاؤں تمام رنگ تھے
اس پہ بھی یہ سوال وہ کیسے سفر میں گم ہوا
سوچ حواس میں نہ تھی آنکھ حدود میں نہ تھی
پیڑ ہوا میں اڑ گئے سانپ کھنڈر میں گم ہوا
ہر خبر اس سے تھی خبر اور وہ بے پناہ تھا
حرف زدہ ہوا تو پھر ایک خبر میں گم ہوا
موج شفق سراب تھی مرگ نظر خیال تھا
دائرہ آب پر رہا نقطہ بھنور میں گم ہوا
مجھ میں تھے جتنے عیب وہ میرے قلم نے لکھ دیئے
مجھ میں تھا جتنا حسن وہ میرے ہنر میں گم ہوا
غزل
اپنی نظر سے ٹوٹ کر اپنی نظر میں گم ہوا
حکیم منظور