ہے اضطراب ہر اک رنگ کو بکھرنے کا
کہ آفتاب نہیں رات بھر ٹھہرنے کا
مجسمے کی طرح موسموں کو سہتا ہے
وہ منتظر ہے کوئی حادثہ گزرنے کا
لٹکتے سوکھتے یہ نقش یوں ہی روئیں گے
گزر گیا ہے جو موسم تھا رنگ بھرنے کا
وہ آئنے سے اگر ہو گیا ہے بے پروا
جواز کیا ہے اسے پھر کسی سے ڈرنے کا
گرے گی کل بھی یہی دھوپ اور یہی شبنم
اس آسماں سے نہیں اور کچھ اترنے کا
اب آگ آگ ہے نیلے پہاڑ کا منظر
ہمیں تھا شوق بہت اس کے پار اترنے کا
اگرچہ اس کی ہر اک بات کھردری ہے بہت
مجھے پسند ہے ڈھنگ اس کے بات کرنے کا
دیا ہے جس نے بھی چپ کا شراپ لفظوں کو
اسے خبر ہے نہیں لفظ کوئی مرنے کا
ہمیں خبر ہے ہمارے سفر کی اے منظورؔ
کہیں گے ہم ہی نہ ہے راستا سنورنے کا
غزل
ہے اضطراب ہر اک رنگ کو بکھرنے کا
حکیم منظور