چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا
وہم تھا میرا کہ پتھر آئینہ ہو جائے گا
میں بڑا معصوم تھا مجھ کو خبر بالکل نہ تھی
میرے چھو لیتے ہی وہ میرا خدا ہو جائے گا
دائرہ در دائرہ ہے سبز جنگل سرخ آگ
کب ہوا جاگے یہ منظر کب ہوا ہو جائے گا
بے مروت راستوں سے بے خبر شاید ہے وہ
پھر کہیں پر میرا اس کا سامنا ہو جائے گا
سات رنگوں کی جبیں پر وہ لکھے گا اپنا نام
جب وہ اپنے رنگ کا عکس آشنا ہو جائے گا
آفتاب اس راز سے نا آشنا شاید نہیں
قید محور سے کسی دن یہ رہا ہو جائے گا
ہاتھ میں لے کر قلم منظورؔ یہ سوچا نہیں
کاروبار لفظ میں کیا فائدہ ہو جائے گا
غزل
چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا
حکیم منظور