EN हिंदी
چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا | شیح شیری
chhoD kar bar-e-sada wo be-sada ho jaega

غزل

چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا

حکیم منظور

;

چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا
وہم تھا میرا کہ پتھر آئینہ ہو جائے گا

میں بڑا معصوم تھا مجھ کو خبر بالکل نہ تھی
میرے چھو لیتے ہی وہ میرا خدا ہو جائے گا

دائرہ در دائرہ ہے سبز جنگل سرخ آگ
کب ہوا جاگے یہ منظر کب ہوا ہو جائے گا

بے مروت راستوں سے بے خبر شاید ہے وہ
پھر کہیں پر میرا اس کا سامنا ہو جائے گا

سات رنگوں کی جبیں پر وہ لکھے گا اپنا نام
جب وہ اپنے رنگ کا عکس آشنا ہو جائے گا

آفتاب اس راز سے نا آشنا شاید نہیں
قید محور سے کسی دن یہ رہا ہو جائے گا

ہاتھ میں لے کر قلم منظورؔ یہ سوچا نہیں
کاروبار لفظ میں کیا فائدہ ہو جائے گا