ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا
وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا
نہ دے سکا مجھے وسعت سمندروں کی مگر
سمندروں کا مجھے اضطراب دے کے گیا
وہ کس لیے مرا دشمن تھا جانے کون تھا وہ
جو آنکھ آنکھ مسلسل سراب دے کے گیا
خلا کے نام عطا کر کے چھاؤں کی میراث
مجھے وہ جلتا ہوا آفتاب دے کے گیا
وہ پیڑ اونچی چٹانوں پہ اب بھی تنہا ہیں
انہی کو ساری متاع سحاب دے کے گیا
ہر ایک لفظ میں رکھ کر سراب معنی کا
ہر ایک ہاتھ میں وہ اک کتاب دے کے گیا
میں کل ہوں اور تو جز میں بھی کل ہے اے منظورؔ
بچھڑتے وقت مجھے یہ خطاب دے کے گیا
غزل
ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا
حکیم منظور