چھوڑ کر مجھ کو کہیں پھر اس نے کچھ سوچا نہ ہو
میں ذرا دیکھوں وہ اگلے موڑ پر ٹھہرا نہ ہو
میں بھی اک پتھر لیے تھا بزدلوں کی بھیڑ میں
اور اب یہ ڈر ہے اس نے مجھ کو پہچانا نہ ہو
ہم کسی بہروپئے کو جان لیں مشکل نہیں
اس کو کیا پہچانیے جس کا کوئی چہرا نہ ہو
اس کو الفاظ و معانی کا تصادم کھا گیا
اب وہ یوں چپ ہے کہ جیسے مدتوں بولا نہ ہو
دندناتا یوں پھرے ہے شہر کی سڑکوں پہ وہ
جیسے پورے شہر میں کوئی بھی آئینہ نہ ہو
لوگ کہتے ہیں ابھی تک ہے وہ سرگرم سفر
مجھ کو اندیشہ کہیں وہ راہ میں سویا نہ ہو
مجھ کو اے منظورؔ یوں محسوس ہوتا ہے کبھی
جیسے سب اپنے ہوں جیسے کوئی بھی اپنا نہ ہو
غزل
چھوڑ کر مجھ کو کہیں پھر اس نے کچھ سوچا نہ ہو
حکیم منظور