اب کیوں گلہ رہے گا مجھے ہجر یار کا
بے تابیوں سے لطف اٹھانے لگا ہوں میں
ہادی مچھلی شہری
اب وہ پیری میں کہاں عہد جوانی کی امنگ
رنگ موجوں کا بدل جاتا ہے ساحل کے قریب
ہادی مچھلی شہری
اشک غم عقدہ کشائے خلش جاں نکلا
جس کو دشوار میں سمجھا تھا وہ آساں نکلا
ہادی مچھلی شہری
بے درد مجھ سے شرح غم زندگی نہ پوچھ
کافی ہے اس قدر کہ جیے جا رہا ہوں میں
ہادی مچھلی شہری
دل سرشار مرا چشم سیہ مست تری
جذبہ ٹکرا دے نہ پیمانے سے پیمانے کو
ہادی مچھلی شہری
غم دل اب کسی کے بس کا نہیں
کیا دوا کیا دعا کرے کوئی
ہادی مچھلی شہری
غضب ہے یہ احساس وارستگی کا
کہ تجھ سے بھی خود کو بری چاہتا ہوں
ہادی مچھلی شہری
ہر مصیبت تھی مجھے تازہ پیام عافیت
مشکلیں جتنی بڑھیں اتنی ہی آساں ہو گئیں
ہادی مچھلی شہری
لطف جفا اسی میں ہے یاد جفا نہ آئے پھر
تجھ کو ستم کا واسطہ مجھ کو مٹا کے بھول جا
ہادی مچھلی شہری