وہ نگاہیں جو دل محزوں میں پنہاں ہو گئیں
شوق کی بیتابیاں بڑھ کر نمایاں ہو گئیں
ہر مصیبت تھی مجھے تازہ پیام عافیت
مشکلیں جتنی بڑھیں اتنی ہی آساں ہو گئیں
تیر کھا کھا کر تڑپنا دل کی قسمت ہی میں تھا
یا الٰہی وہ نگاہیں کیوں پشیماں ہو گئیں
اک ذرا سے مسکرا دینے کا حاصل یہ ہوا
ہستیاں غنچوں کی اوراق پریشاں ہو گئیں
شوق پھر صرف چمن آرائی خاطر ہے آج
پھر وہی رنگینیاں جان گلستاں ہو گئیں
شیشۂ دل عکس بردار تمنا پھر ہوا
پھر فروزاں شمع ہائے طاق نسیاں ہو گئیں
غزل
وہ نگاہیں جو دل محزوں میں پنہاں ہو گئیں
ہادی مچھلی شہری